غزل
اہل جہاں کے ساتھ وفا یا جفا کروں
میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا ہے کیا کروں
یہ درد دل تو حاصل عمر دراز ہے
میں اس کو اپنی ذات سے کیوں کر جدا کروں
دنیا یہی کرے گی تو دنیا سے پیشتر
مجروح کیوں نہ خود ہی میں اپنی انا کروں
دنیا میں کون ہے جو نہیں ہے مرے خلاف
اک تم ہی رہ گئے ہو تمہیں بھی خفا کروں
ہر زاویے سے زیست نے رسوا کیا مجھے
کس رخ سے اپنی ذات کا اب سامنا کروں
احسان جو اٹھائے ہیں اوروں کے واسطے
اوروں پہ ہیں وہ قرض مگر میں ادا کروں
آنکھوں کو نیند کی بھی رفاقت نہیں نصیب
میں شمع تو نہیں کہ سحر تک جلا کروں
حسرت ہی رہ گئی کہ بہاروں کے درمیاں
تیرے بغیر بھی تو کبھی خوش رہا کروں
بیگانگی کو چھوڑ کے فطرت بھی ہنس پڑے
آدم کے نام پر کوئی ایسی خطا کروں
جب کرب آگہی میں ہوں اے لیثؔ آج کل
اس کرب آگہی سے کسے آشنا کروں
لیث قریشی