ایامِ جوانی میں غمِ یار مجھے دے
جو چیز ہو دشوار سے دشوار مجھے دے
اب حشر زمانے میں بپاہے تو مجھے کیا
کب میں نے کہا قوتِ اظہار مجھے دے
پھولوں نے تو اک رات بھی مجھ سے نہ نبھائی
اب اپنے گلستاں سے کوئی خار مجھے دے
پرواز کی وسعت پہ ہے اب چیں بہ جبیں کیوں
کیا میں نے کہا تھا کہ یہ رفتار مجھے دے
اس غم کدہء دہر کو میں دیکھ چکا خوب
اب اور کوئی منزلِ دشوار مجھے دے
یہ شاد حزیں آنکھ کا اندھا ہے خدایا
دینا ہے تو اک دیدہء خوں بار مجھے دے
شاد بہٹوی