غزل
ایسا نہیں کہ میں ہی سحر ڈھونڈتا رہا
ہر شخص بادلوں میں قمر ڈھونڈتا رہا
خود کو دیار یار میں ڈھونڈا گلی گلی
لیکن ملی نہ کوئ خبر ڈھونڈتا رہا
دیکھا جو ہر طرف تو انا کے ہی بت ملے
کوئ ملا نہ مجھ کو بشر ڈھونڈتا رہا
ملتی کہاں سے مجھ کو محبت کی روشنی
تاریکیوں میں شمس وقمر ڈھونڈتا رہا
یارانِ حیلہ ساز ہیں اطراف میں مرے
مہر و وفا ہے کھوئ کدھر ڈھونڈتا رہا
اس نے تمام زخم مرے نام کردئیے
جس کے لئے نوید سحر ڈھونڈتا رہا
دستار فیض لے کے کھڑا تھا فصیل پر
مجھ کو ملا نہ کوئی بھی سر ڈھونڈتا رہا
ہو جائے سب کے واسطے آسودہ یہ حیات
عمران عمر بھر وہ ہنر ڈھونڈتا رہا
احمد عمران اویسی