ایسے جلتا کہاں جلانے سے
آشیاں جل گیا بجھانے سے
کون چھو کر گیا خیالوں کو
راگ چھڑ گیا گنگنانے سے
آتش ے شوق اسقدر بھڑکی
بجھ سکی یہ نہ پھر بھجانے سے
تیرگی چھا گئ مکانوں میں
دیپ ہی بجھا دہیے زمانے نے
بادباں اڑ گئے جہازوں کے
پھر ہواوں کے ورغلانے سے
اب خدا کی ،کہاں ہے تو لاٹھی
ظلم روکے گی کب تو ،ڈھانے سے
گلِ نسرین