Aysay kay phool Band e qaba say nikal Paray
غزل
ایسے کہ پھول بند قبا سے نکل پڑے
جیسے حیات دست فنا سے نکل پڑے
تازہ ہوا کا جھونکا بھی آیا کہیں سے یوں
فرحت گھٹن میں جیسے ہوا سے نکل پڑے
تجھ کو تخیلات کے آنگن میں دیکھ کر
چاہت کے راگ صوت صبا سے نکل پڑے
جتنے بھی زخم اس نے دیے روح پر مجھے
اتنے ہی پھول حرفِ دعا سے نکل پڑے
ضبط وفا نے رکھا ہوا تھا مرا بھرم
شکوے ہزار طرزِ جفا سے نکل پڑے
لہجے کے روک وار تو ایسا نہ ہو کہیں
اندر کا شور ضبط انا سے نکل پڑے
احساس یہ ہوا ہے ترا ساتھ چھوڑ کر
خود کو بچا کے دشت بلا سے نکل پڑے
اس نے مصالحت کا اٹھایا ہے گر قدم
اپنے قدم بھی قصر انا سے نکل پڑے
تاریکیوں میں جب بھی لیا دل نے اس کا نام
جگنو ہزار کنج قضا سے نکل پڑے
تابشِ اٹھا جو پہلا قدم خیر کی طرف
لشکر جزا کے باب خطا سے نکل پڑے
شہزاد تابشِ
Shahzad Tabish