ایک آئینہ رو بہ رو ہے ابھی
اس کی خوشبو سے گفتگو ہے ابھی
۔
وہی خانہ بدوش امیدیں
وہی بے صبر دل کی خو ہے ابھی
۔
دل کے گنجان راستوں پہ کہیں
تیری آواز اور تو ہے ابھی
۔
زندگی کی طرح خراج طلب
کوئی درماندہ آرزو ہے ابھی
۔
بولتے ہیں دلوں کے سناٹے
شور سا یہ جو چار سو ہے ابھی
۔
زرد پتوں کو لے گئی ہے ہوا
شاخ میں شدت نمو ہے ابھی
۔
ورنہ انسان مر گیا ہوتا
کوئی بے نام جستجو ہے ابھی
۔
ہم سفر بھی ہیں رہ گزر بھی ہے
یہ مسافر ہی کو بہ کو ہے ابھی
ادا جعفری