ایک اک آنسو پلکوں کے پہرے میں رکھنا ہے
میں نے اپنا دکھ اپنے قبضے میں رکھنا ہے
طوطے پالنے والے کواتنا معلوم نہ تھا
کونسا طوطا لیکر کس پنجرے میں رکھنا ہے
بییٹھے رہنا ہے بیری کی چھدری چھاؤں میں
اور اک گہری بدلی کو چرچے میں رکھنا ہے
میں نے دنیا کو چھوڑا یا دنیا نے مجھ کو
اپنی تنہائ کو کس کھاتے میں رکھنا ہے
پوچھنا یہ تھا کونسے رستے سے تم آؤ گے
میں نے اپنا پھول سا دل رستے میں رکھنا ہے
سعید صاحب