غزل
ایک اک لفظ میں ہے صندلیں جذبوں کا بہاؤ
تیرے لہجے میں ہے کس جوئے رواں کا ٹھہراؤ
پھر ہوئی شام کرے دل کی تواضع کا خیال
کوئی بھولا ہوا منظر کوئی رستا ہوا گھاؤ
کوئی پتھر کسی کوچے میں نہ رہنے پائے
آج کرنا ہے کسی شیش محل پر پتھراؤ
میں پگھل جاؤں نہ سانسوں کی حرارت سے کہیں
پاس اتنے بھی نہ آؤ کہ اکیلے رہ جاؤ
چلچلاتی ہوئی یہ دھوپ یہ سنسان ڈگر
اب جو نکلے ہو سفر کو تو ذرا لطف اٹھاؤ
سونپ جائے نہ کہیں راکھ کا تحفہ یہ بھی
دل میں اب تک جو سلگتا ہے ترے غم کا الاؤ
گنگناؤ قمر اقبالؔ کی غزلیں لیکن
اک غزل اس کی اسے بھی تو کسی روز سناؤ
قمر اقبال