غزل
ایک بجا ہے رات کا اب تو سونے دو
موبائل بھی گرم ہے ٹھنڈا ہونے دو
آج تو پیاسے صبر کے گھر میں یکجا ہیں
دریاؤں کو آج اکیلا رونے دو
سوچ لو دل کو باہر چھوڑ کے آئے تو
ہم دو میں سے رہ جائیں گے پونے دو
آندھی نے جو بھر دی ہے ان آنکھوں میں
جانے کس کی گرد ہے آنکھیں دھونے دو
اس صوفہ پر لیٹ کے میں سو جاؤں گا
ان کے خواب کو بستر پر ہی سونے دو
احتشام الحق صدیقی