ایک بچہ اور جگنو

(اسماعیل میرٹھی)

سناؤں تمہیں بات اک رات کی
کہ وہ رات اندھیری تھی برسات کی

چمکنے سے جگنو کے تھا ایک سماں
ہوا پر اُڑیں جیسے چنگاریاں

پڑی ایک بچے کی ان پر نظر
پکڑ ہی لیا ایک کو دوڑ کر

چمک دار کیڑا جو بھایا اسے
تو ٹوپی میں جھٹ پٹ چھپایا اُسے

وہ جھم جھم چمکتا پھرا
کوئی رستہ نہ پایا مگر

تو غمگین قیدی نے کی التجا
کہ چھوٹے شکاری! مجھے کر رِہا

جُگنو

خدا کے لئے چھوڑ دے چھوڑ دے!
مِری قید کے جال کو توڑ دے

بچّہ

کروں گا نہ آزاد اُس وقت تک
کہ میں دیکھ لوں دِن میں تیری چمک

جُگنو

چمک میری دن میں نہ دیکھو گے تُم
اُجالے میں ہو جائیگی وہ تو گُم

بچّہ

ارے چھوٹے کیڑے نہ دے دم مجھے
کہ ہے واقفیت ابھی کم مجھے

اُجالے میں دن کے کُھلے گا یہ حال
کہ اتنے سے کیڑے میں ہے کیا کمال

جگنو

یہ قدرت کی کاریگری ہے جناب
کہ ذرّ ے کو چمکائے جوں آفتاب

مجھے دی ہے اس واسطے یہ چمک
کہ تم دیکھ کر مجھ کو جاؤ ٹھٹَک

نہ الڑھ پنے سے کرو پائمال
سنبھل کر چلو آدمی کی سی چال

(اسماعیل میرٹھی)

Facebook
Twitter
WhatsApp