غزل
ایک دیوانے سے صحرا میں بچا کچھ بھی نہیں
حوصلہ گر ہو تو مشکل راستہ کچھ بھی نہیں
یہ بھی اعجازِ محبت ہے کہ اس کے دل کی بات
میں نے سب کچھ سن لیا اس نے کہا کچھ بھی نہیں
سوچی سمجھی سازشوں کو حادثہ کیسے کہیں
آپکی نفرت کے آگے حادثہ کچھ بھی نہیں
آنکھ کھلتے ہی بکھر جاتی ہے زروں کی طرح
زندگی اِک خواب ہے اسکے سوا کچھ بھی نہیں
آدمی بس آدمی ہیں میری نظروں میں سبھی
شیخ ، سید، خان یا چھوٹا بڑا کچھ بھی نہیں
میں نے سیکھا ہے سنورنا ان میں اور میرے لیے
اُسکی آنکھیں ہیں سبھی کچھ آئینہ کچھ بھی نہیں
سب اسی کی مہربانی پر یہاں موقوف ہے
آگ، پانی، مٹی اور بادِ صبا کچھ بھی نہیں
بے طلب ، بے مدعا کر لی ہے میں نے زندگی
اب تو میری زندگی میں مسئلہ کچھ بھی نہیں
غم کا سرمایہ جو میرے پاس ہے نصرت وہ سب
ہے عطا اپنوں کی غیروں نے دیا کچھ بھی نہیں
نصرت عتیق گورکھپوری