غزل
ایک چہرہ ہدف بنانے پر
دھر لیا کیوں ہمیں نشانے پر
سوچتا ہوں یہ کیا تسلسل ہے
ٹوٹ جاتا ہے سانس آنے پر
سارے موتی بکھرتے جاتے ہیں
ایک دھاگے کے ٹوٹ جانے پر
ہجر پیچھے ہی پڑ گیا میرے
چند لمحوں کو گدگدانے پر
انگلیاں نجمؔ خود پہ اٹھنے دے
تو نہ انگلی اٹھا زمانے پر
جی اے نجم