غزل
اے دامِ حسنِ یار بری ہو گیا ہوں میں
ٹوٹا ہے دل تو اور قوی ہو گیا ہوں میں
یکجا کیا ہے حرف شناسانِ شہر کو
اور وہ بھی اس طرح سے نفی ہو گیا ہوں میں
حالانکہ بک گیا ہوں سرِ راہِ دوستاں
دشمن یہ کہہ رہا ہے سخی ہو گیا ہوں میں
اب میرے چاکِ جیب و گریباں سے کیا تجھے
جو کچھ کہا تھا تو نے وہی ہو گیا ہوں میں
اک بے نوا پہ اتنی عنایات اے خدا
حرفِ خفی تھا حرفِ جلی ہو گیا ہوں میں
ساجد رضوی