باتوں سے تیری بات کا پہلو نکل پڑے
جیسے کسی بھی پُھول سے خوشبو نکل پڑے
دُنیا کے کام کاج سے فرصت ملی تو پھر
بستر سے تیری یاد کے بچّھو نکل پڑے
دن بَھر تمام پنچھی تجھے ڈھونڈھتے رہے
شَب کو تری تلاش میں جگنو نکل پڑے
ایسا شدید وجد کہ مت پُوچھیے حضُور
ہم رقص ہی کِیے تھے کہ گھنگرو نکل پڑے
پھینکا گیا تھا ہم کو بھی دریا کے بِیچ میں
پھر یوں ہوا کہ ہم بھی لبِ جُو نکل پڑے
فیصل محمود