Baat Bay Baat yeh Taana yeh Malamat Kia Hay
غزل
بات بے بات یہ طعنہ یہ ملامت کیا ہے
یہی ہوتی ہے محبت تو عداوت کیا ہے
کروٹیں لیتا ہے ہر درد ترا صبح تلک
چاندنی رات سے اے دل تجھے وحشت کیا ہے
ایک اس کے لیے کتنوں سے برائی لے لی
اب خدا جانے اسے مجھ سے شکایت کیا ہے
اک یقیں کی ہے حرارت کہ کوئی ہے اپنا
اور اس کے سوا جسموں میں حرارت کیا ہے
جب زمینوں سے نئی کوئی تعلق ہی نہیں
کوئی پوچھے ہمیں ہجرت کی ضرورت کیا ہے
نسیم سید
Naseem Syed