بات سے بات نکلنے کے وسیلے نہ رہے
لب رسیلے نہ رہے نین نشیلے نہ رہے
.
اشک برسے تو دروں خانۂ جاں سیل گیا
درد چمکا تو در و بام بھی گیلے نہ رہے
.
پھول سے باس جدا فکر سے احساس جدا
فرد سے ٹوٹ گئے فرد قبیلے نہ رہے
.
ٹیس اٹھتی ہے مگر چیخ نہیں ہو پاتی
تیرے پھینکے ہوئے پتھر بھی نکیلے نہ رہے
.
موت نے چھین لیا رنگ بھی نم بھی خالدؔ
آنکھ بھی سوکھ گئی ہونٹ بھی نیلے نہ رہے
خالد احمد