Baat mat kar tu us sitmgar ki
غزل
بات مت کر تو اس ستم گر کی
بات کر مجھ سے تو دسمبر کی
فیض ملتا نہیں جہاں سے کبھی
دھول چاٹے ھے کیوں اسی در کی
ہیں خیالات قیمتی لیکن
بات کرتا ہے تُو ٹکے بھر کی
تجھ کو دیکھا عدو کی بانہوں میں
جھوٹی قسمیں نہ کھا مرے سر کی
آج بادِ صبا کے ہوتے ہوئے
کیوں کریں بات بادِ سرسر کی
جھاڑ مت اس طرح وچار یہاں
لے خبر پہلے جا کے تو گھر کی
اس غریبی میں بات شاہانہ
بات مت کر تو سنگِ مرمر کی
اس مہینے کے ہیں کئی شیدا
تو بھی کہہ لے غزل دسمبر کی
کیا نظر میں سما گیا منظر
ہے کوئی بات نصف بہتر کی
نظر فاطمی
Nazar Fatmi