بات پھر سے چھیڑ دی زلف و نگاہ یار کی
پہلے ہی کچھ کم نہ تھیں کیا رنجشیں اغیار کی
آج تک تو خوف رسوائی نے روکے تھے قدم
خوب ہے وقت نزع لینا خبر بیمار کی
جان و دل لے کر ہونے حاضر تری سرکار میں
داستان قتل پھر سرخی بنے اخبار کی
زندگی بھر تو جلائے آرزوؤں کے چراغ
بےثباتی ہم سمجھ پائے نہ تھے سنسار کی
اقبال بسمل