loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

18/06/2025 18:02

بات کچھ بھی نہیں مگر, پھربھی

بات کچھ بھی نہیں مگر, پھربھی
بد گمانی اِدھر اُدھر ، پھر بھی

عقل نے کونسا جتن نہ کیا
ہائے ٹکڑے ہوا جگر پھر بھی

عشق تفریح یا مذاق نہیں
کھیلتا کیوں ہے جان پر پھر بھی

تُو بہت بے خیال ہے ، اِس کی
کیا تجھے ہے کوئی خبر پھر بھی

لاپتہ ہیں تمام تعبیریں
خواب پھرتے ہیں دربدر پھر بھی

فکرِ فردا بجا تو ہے لیکن
یوں نہ نیندیں خراب کر پھر بھی

مسئَلہ کیا ہے پیش آنکھوں کو
خون آلود کیوں نظر پھر بھی

آنکھ صدیوں دعائے خیر کرے
اشک کی عمر لمحہ بھر پھر بھی

مدعا جو سمجھ نہ آئے مرا
ہچکچاہٹ پہ غور کر پھر بھی

روز خواہش کی سرزنش کی ہے
روز ہوتا ہے شور و شر پھر بھی

قہقہوں کی مدد تو ہے منظور
تھرتھراتی ہے چشمِ تر پھر بھی

احمد منظور

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم