بات کی بات سے ڈر لگتا ہے
اس مساوات سے ڈر لگتا ہے
تم کوئی بات سمجھتے ہی نہیں
بس اسی بات سے ڈر لگتا ہے
جس میں کوئی نہ ملے اپنے سوا
اس ملاقات سے ڈر لگتا ہے
دل بضد ہے کہ وہی بات کہو
سب کو جس بات سے ڈر لگتا ہے
راز کی بات تو کوئی بھی نہیں
عرض حالات سے ڈر لگتا ہے
جن میں گرمی نہ اجالے نہ مہک
ایسے دن رات سے ڈر لگتا ہے
خود کو پرکھا تو یہ سمجھے انجمؔ
کیوں کسی ذات سے ڈر لگتا ہے
انجم فوقی بدایونی