Balayee Taaq Rakhay Hoyee Hoon Khirad Ko Main
غزل
بالائے طاق رکھے ہوئے ہوں خرد کو میں
بس پار کر چکا ہوں محبت کی حد کو میں
ہر اک سے احترام سے پیش آیا عمر بھر
دشنام سے بچاتا رہا اپنے جد کو میں
شاید کہ اس لیے ہی جہاں مہربان ہے
اس دل میں آنے دیتا نہیں ہوں حسد کو میں
استادِ محترم نے سراہا جو شعر کو
رہ رہ کے چومتا رہا حرفِ سند کو میں
بیگانہ ہو کے لمس کی خواہش سے ہر گھڑی
بس دیکھتا رہوں گا ترے خال و خد کو میں
مہمل ہے زندگی کی لغت میں ہر ایک لفظ
پھر لے کے کیا کروں گا ترے شد و مد کو میں
اطفال میں شمار نہ ہونے لگے کہیں
اس ڈر سے ماپتا ہی نہیں اپنے قد کو میں
عابد کسی کے ظرف کا قائل تھا اس قدر
میرے خلاف جنگ تھی پہنچا مدد کو میں
کوٸی تو نقص ہے مرے ایمان میں عمر
زیبا ہے مجھ کو کارِ زیاں کارِ بد کو میں
عابد عمر
Abid Umar