غزل
بالکونی میں ہی مہتاب ہوا کرتا تھا
اپنا جب حلقہ ء احباب ہوا کرتا تھا
چشمِ دنیا کی دلآویز محبت کے طفیل
روزِ روشن کی طرح خواب ہوا کرتا تھا
تیری آنکھوں سے گرا ہوں تو مجھے علم ہوا
دشت میں کونسا سیلاب ہوا کرتا تھا
اب جہاں خون کی ندیاں ہیں رواں شہر بہ شہر
پہلے اس شہر میں تالاب ہوا کرتا تھا
دل مرا روزنِ شب میں بھی مرے دوست ندیم
دیکھ کر آپ کو بیتاب ہوا کرتا تھا
ندیم ملک