باہر نکل کے اس لیے جانا تو ہے نہیں
دشتِ خیالِ یار میں رستہ تو ہے نہیں
دکھ میں بھی پھوٹ پھوٹ کے ہنستا ہوں زار و زار
جس سے لپٹ کے رو سکوں کاندھا تو ہے نہیں
اُجڑے ہوئے دیار کے منظر کو کیا کہوں
چھوڑا تھا جس طرح اسے ویسا تو ہے نہیں
ہونٹوں سے کس طرح کروں میں حالِ دل بیاں
آنکھوں کی جب زبان کو سمجھا تو ہے نہیں
حاصل دعاؤں سے بهلا کیا کچھ ہوا مجھے
تجھ کو مرے نصیب میں لکھا تو ہے نہیں
میں کس طرح سے مان لوں وہ غمگسار ہے
حالت کو میری دیکھ کے تڑپا تو ہے نہیں
ارشد بڑے تپاک سے ملتا ہے آج کل
اک شخص جس نے عمر بھر مانا تو ہے نہیں
ارشد محمود ارشد