غزل
بتاؤ زخم کُریدوں کہ زخم دھو جاؤں
تُو جیسا حُکم کرے آج ویسی ہو جاؤں
وہ چاہتا ہے کہ مر کر میں اُس کی چاہت میں
خیال و خواب کی اِس قبر میں سمو جاؤں
وہ مُجھ کو روک رہا تھا کسی کا ہونے سے
مگر یہ بول نہ پایا میں اُس کی ہو جاؤں
سو اپنے بیچ یہی فرق تھا ہمیشہ سے
وہ جاگتا ہی رہا بول کے میں سو جاؤں
تمام لوگ مرا تذکرہ کریں دن رات
دلوں میں بیج محبت کا ایسا بو جاؤں
میں جسم و جان کی اس سلطنت میں آ کے عمود
ترے خیال کی خوشبو میں آج کھو جاؤں
عمود ابرار احمد