بجا کے اس نے ریاضت کی انتہا کر دی
مگر خیال کی لو شعر سے جدا کر دی
پس حروف کوئی دل کی واردات نہ تھی
سو خوش خطی سے ہی تحریر خوش نما کر دی
نہ دیکھی اس نے کبھی لوح دل پہ ابجد عشق
تو چشم و عارض و لب سے غزل بپا کر دی
کوئی بھی نقطۂ خط زندگی پہ بن نہ سکا
رقم کہیں سے یہ تمثیل دل ربا کر دی
یہ اس کے حرف ہیں آوارگان شہر سخن
مرے خیال نے اس کو زمیں عطا کر دی
جاوید احمد