غزل
بحر الفت کا کہیں کوئی کنارا ہی نہیں
دشت فرقت کا دل افروز نظارا ہی نہیں
اب نہ تڑپاؤ مجھے چارہ گری کی خاطر
آ بھی جاؤ کہ مجھے ضبط کا یارا ہی نہیں
میں نے پیمان وفا باندھ لیا ہے اس سے
جس کو اک لمحہ مرا ساتھ گوارا ہی نہیں
ملتے ہی پھیر لیں اس طرح نگاہیں سب نے
ایسا لگتا ہے کوئی ان میں ہمارا ہی نہیں
اپنی آشفتہ سری کا جو مداوا کرتا
عصر حاضر میں کوئی ایسا سہارا ہی نہیں
ایسا کیا تھا کہ پیمبر اسے کہتی دنیا
دست مانی نے کوئی نقش ابھارا ہی نہیں
ہم نے بسملؔ غم و آلام سے بیعت کر لی
ماسوا ان کے کسی کو بھی پکارا ہی نہیں
بسمل اعظمی