بحورِ زمزمہ و سالم و خفیف اندر
غزل بہ شرط قوافی ملیں ردیف اندر
کچھ ایسے برسرِ جنگاہ مَیں شہید ہوا
اٹھی ہے سرکشی اک، لشکرِ حریف اندر
نہ راس آئی سیاحت ربیعِ گلشن کی
چبھی ہے پھانس دلِ بلبلِ خریف اندر
ہے اسکا حسنِ فسوں کار ماورائے نمود
ہزاروں سحر ہیں اک پردۂ کثیف اندر
جھکا کے سر کو درِ یار سے اٹھا لیوے
نہیں ہے حوصلہ یہ عاشقِ نحیف اندر
شریر لوگوں نے پہنا ہے سانتا کا نقاب
شرافتیں ہیں کہاں نام کے شریف اندر
رہِ وفا پہ ملیں اعتبار کی لاشیں
رسد رسا ہیں عدو، حجرۂ حلیف اندر
رہِ جنوں میں امـؔرآگہی کے ارض و فلک
ہزار منزلیں اس جادۂ لطیف اندر
امر روحانی