Badan say Larty Hoyee zid po Dat Gaya ik Din
غزل
بدن سے لڑتے ہوئے ضد پہ ڈٹ گیا اک دن
جو ایک درد تھا آخر کو گھٹ گیا اک دن
ہمارے چہرے کو چھوڑو یہ ایسا دکھتا ہے
غبارِ وقت سے گر دل بھی اٹ گیا اک دن ؟
مزاج کوئی بھی رہتا نہیں ہے دیر تلک
جو مجھ سے دور کھڑا تھا لپٹ گیا اک دن
وہ آبلہ مری رفتار جو بڑھاتا تھا
مسافتوں میں کہیں پر وہ پھٹ گیا اک دن
فقیۂ شہر جسے اختلاف تھا تجھ سے
سدھر گیا کہ وہ رستے سے ہٹ گیا اک دن
زوال آتا ہے صحرا پہ آج دیکھ لیا
جو مجھ میں پھیلا ہوا تھا سمٹ گیا اک دن
مجھے گماں تھا کہ میرا ہے صرف میرا ہے
وہ ایک دریا تھا رستوں میں بٹ گیا اک دن
کنارے تھا تو مسلسل اداس تھا صابر
سمندروں کو سفینہ پلٹ گیا اک دن
صابر چودھری
Sabir Choudhry