Badan Ka Malba Tah e khak say Uthaty Hoyee
غزل
بدن کا ملبہ تہہِ خاک سے اٹھاتے ہوئے
وہ رو پڑا مرے جیسا کوئی بناتے ہوئے
یہ کون عکس تھا آنکھوں میں مثلِ نقشِ ہنوط
کہ آنکھ ڈرنے لگی خواب تک سجاتے ہوئے
نہ جانے کیوں مری آنکھوں سے نم پھسلنے لگا
جب اس نے دیکھا مری سمت مسکراتے ہوئے
وہ ضدی بچہ بنا بیٹھا تھا مرے آگے
کھلونا بننا پڑا تھا اسے مناتے ہوئے
اچھل کے پھیل گئی روشنائی کاغذ پر
بگڑ گئے ہیں کئی زاویے ،بناتے ہوئے
جو میرے دوست ہیں ، زیرِ نقاب آیا کریں
میں مڑ کے دیکھ بھی سکتی ہوں زخم کھاتےہوئے
یہ واپسی تو مرا ذاتی فیصلہ تھا مگر
میں کتنا ڈول رہی تھی قدم اٹھاتے ہوئے
وہ کوئی پچھلے زمانوں کی داستاں تھی جسے
یہ لوگ سنتے رہے تالیاں بجاتے ہوئے
فرح گوندل
Farah Gondal