برا ئے مرگ سنوارا ھے زندگی نے مجھے
کس اہتمام سے مارا ھے زندگی نے مجھے
یہاں تو فرصتِ ہستی کا ایک پل بھی نہیں
یہ کس زمیں پہ اتارا ھے زندگی نے مجھے
جو تیری چاہ میں گزری وہ زندگی تھی مری
پھر اس کے بعد گزارا ھے زندگی نے مجھے
میں تیری یاد میں گم تھی کہ آئ تیری صدا
مجھے لگا کے پکارا ھے زندگی نے مجھے
شکستہ عکس ھے یہ میرے خد و خال نہیں
کس آئینے میں ابھارا ھے زندگی نے مجھے
صراطِ عشق پہ کچھ ایسی خوش خرام تھی میں
سنبهل سنبھل کے گزارا ھے زندگی نے مجھے
وہ مختصر سا جو اک لمحہ ء رفاقت تھا
اس ایک لمحے پہ وارا ھے زندگی نے مجھے
وہ تیرے وصل سے تیرے فراق تک کا سفر
ہر ایک موڑ پہ مارا ھے زندگی نے مجھے
گزرنے والی ھوں میں اپنی منزلِ جاں سے
کہاں پہ آ کے پکارا ھے زندگی نے مجھے
پروین حیدر