غزل
برداشت کیوں کرے گا ذرا سی بھی دیر دل
پھیری نظر تو روئے گا منہ پھیر پھیر دل
محسوس یہ ہوا ہے تری آنکھ کے طفیل
آئینہ ہے چراغ ہے مٹی کا ڈھیر دل
شاید تری طرف سے ہو آغاز دل بری
کم بخت اس لیے بھی تو کرتا ہے دیر دل
ذکر وفا جو آئے تو ہر بات پر ترا
کرتا ہے میرے دل سے بہت ہیر پھیر دل
ہم سے ملیں تو دل کو سنبھالا کریں جناب
ہم لوگ بات چیت سے کرتے ہیں زیر دل
دل داریوں کے دام میں بالکل نہ آئے گی
ہے سامنے جناب کے سچ مچ میں شیر دل
راشدہ ماہین ملک