غزل
برق ملتی ہے نہ تنکوں کو شرر ملتا ہے
دل کو برسات میں بے برگ شجر ملتا ہے
اس کی گرمئ سخن راس نہ آئی اس کو
اب وہ ملتا ہے تو کیا خاک بسر ملتا ہے
صرف جینے کی ہوس ساتھ رہے تو شاید
عمر کے ساتھ ہر اک گام پہ در ملتا ہے
چار دیواری سے شاید نہیں کچھ اس کو مفر
گھر کے باہر وہ بہ انداز دگر ملتا ہے
میں اسے بھول کے زندہ رہوں ممکن ہے مگر
مجھ کو ہر موڑ پہ اس شخص کا گھر ملتا ہے
جس کے کاسے میں انا ہے کوئی تخلیق نہیں
اس کو ہر لفظ میں اک کاسۂ سر ملتا ہے
درد کے ساتھ جڑا ہوتا ہے تخلیق کا کرب
کچھ سوا مجھ کو بہ ہنگام ہنر ملتا ہے
اب شہادت سر منبر ہی سہی عام ہوئی
اب دعاؤں کو کہاں باب اثر ملتا ہے
کل جہاں لاش پڑی تھی کوئی اقبال متینؔ
آج بھی کون وہاں خون میں تر ملتا ہے
اقبال متین