غزل
بس کار ِ محبت میں لپٹنا نہیں آتا
ورنہ ترے دیوانے کو کیا کیا نہیں آتا
موسیٰ نہیں جو طور سے لوٹے گا اسی پل
مجنون ہے وہ دشت سے دکھتا ، نہیں آتا
جاتے ہیں بہتر شہِ مرداں کے جیالے
کربل کا یہاں منہ کو کلیجہ نہیں آتا ؟
خوابوں کو نظر بند کرو اور نہ دیکھو
جاتا ہے جو اک بار دوبارا نہیں آتا
بھیگی ہوئی دھرتی ہے ترے خونِ جگر سے
شبیر یہ سن کر کسے رونا نہیں آتا
قسمت کی سیاہی نے نظر بند کیا ہے
ڈوبے ہوئے سورج کو ابھرنا نہیں آتا
بخشا ہے مجھے ہجر بہاروں کے دنوں میں
اے یار تجھے خوف خدا کا نہیں آتا
آتی ہیں اسے کارِ جہاں تاب کی رمزیں
سائے کی طرح مجھ سے لپٹنا نہیں آتا
دیکھے گی نہ دھرتی بھی لہو شبد کی گرمی
جب تک وہ مجھے دار پہ لٹکا نہیں آتا
آنکھوں کی طلب کھو گئی یا ذوقِ تمنا
اس دل کو ترے بعد دھڑکنا نہیں آتا
ہاتھوں میں مرے ہاتھ کے ہوتے ہوئے اس کو
بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو جھٹکنا نہیں آتا
ناچیز ہے ہر چیز مرے شعر کے آگے
میں شیخِ بلاغت ہوں مجھے کیا نہیں آتا
کرن منتہیٰ