بعد از نوائے تخلیہ تھوڑی سی روشنی رہے
جذبوں کی ٹوٹی میز پر شمعِ غزل دھری رہے
پیتا ہے کون شوق میں،اے زیست میری بات سن
عشقِ بتاں کی آگ سے میری چلم بھری رہے
لوٹیں گے آج قافلے اس کی سنہری یادوں کے
آنکھوں کے در پہ نیند سے اتنا کہو! کھڑی رہے
اک عکسِ بے زبان سے کرنی ہے آج گفتگو
اے دل کی دھڑکنوں سنو! تھوڑی سی خامشی رہے
مرنا ہے سب کو ایک دن ہم بھی مریں گے ہاں مگر!
ذکر ِ جمالِ یار سے آباد شاعری رہے
ساری خطائیں میری ہیں، مجھ کو تھا اعتبارِ یار
ساری سزائیں مجھ کو دو، اس کو کہو بری رہے
ہم نے ہی بس نہیں سنا، دل نے تو بارہا کہا
جس کی نگہ میں ہیچ ہوں،کیوں اس سے دل لگی رہے
اس نقش پا کے پیچھے ہم صحرا کے پار جائیں گے
گر زندگی بھی سنگ سنگ اپنے بھاگتی رہے
اردو سکھا رہے ہیں ہم یوں اپنے نو نہالوں کو
تاکہ ہمارے بعد بھی ، شاخِ غزل ہری رہے
اترے گی دل کے زینے سے خانہ بدوش اس کی یاد
ان مصرعوں سے بول دو بس ربطِ باہمی رہے
ثمر خانہ بدوش