غزل
بنا سحر کے اجالے مجھے قبول نہیں
ترے یہ جھوٹے دلاسے مجھے قبول نہیں
نہ تو مداری ہے نہ میں ترا جمورا ہوں
یہ آئے دن کے تماشے مجھے قبول نہیں
بڑھا کے ہاتھ کو تم نے مجھے گرایا ہے
اگر یہی ہیں سہارے مجھے قبول نہیں
کسی کے ذہن کی جو کھڑکیاں نہ کھول سکیں
تو ایسے علم کے دعوے مجھے قبول نہیں
جو میرے دل پہ ہے گزری وہی اگر نہ کہو
تو باقی شور شرابے مجھے قبول نہیں
ہو ظلم عام جہاں پر جہاں نہ حق پہنچے
یہ بھولے بھٹکے زمانے مجھے قبول نہیں
حنا عباس