Bana Kar toor Detta Hoon main ik Tasveer pathar ki
غزل
بنا کر توڑ دیتا ہوں میں اک تصویر پتھر کی
کہ بن جاتی ہے صورت روز اک وحشی ستمگر کی
ستم پر مت ستم کیجئے کہ اک محشر متعین ہے
خدا جانے کہ کیسی ہو وہاں حالت ترے سر کی
مری آنکھوں کی سرخی نے نہ جانے کیا ستم ڈھائے
صراحی رو پڑی دیکھی پریشاں پیاس ساغر کی
مجھے لوگوں سے الفت ہے جو میں باغی ہوا ورنہ
کہاں دہشت بغاوت کی کہاں طاسیں سمندر کی
طاسین سمندر
Taseen Samandar