بن پانی کی مچھلی کا سا حال کروں، دھمال کروں
عشق کروں اور ساگر میں بھونچال کروں، دھمال کروں
رنگ بکھیروں دھڑکن کو سر تال کروں، دھمال کروں
رقص کروں اور پیروں کو بے حال کروں، دھمال کروں
دیوانہ اک خاک اڑاتا دشت میں جب جب آئے تو
کھول کے بانہیں اس کا استقبال کروں، دھمال کروں
دھرتی دھرتی آنکھ سے پیہم اشک گرائے جاتے ہیں
جوگن بن کر رقص میں پورا سال کروں، دھمال کروں
مانجھی کی اٹھتی تانوں میں رنج کا نوحہ بہتا ہے
سوگ مناؤں ساتھ کھلے میں بال کروں، دھمال کروں
سر پر ٹھہری خاک کی چادر راہ کسی کی تکتی ہے
تیرے عشق کو اوڑھوں اپنی شال کروں، دھمال کروں
منظر کی دیوار پہ تشؔنہ میرا روشن چاند نہیں
سیاروں کو میں اپنا لج پال کروں، دھمال کروں
حمیرہ گل تشنہ