غزل
بول سکتے ہیں مگر بات نہیں کر سکتے
وقت ایسا ہے سوالات نہیں کر سکتے
فیس بک کا بھی تعلق ہے تعلق کیسا
دیکھ سکتے ہیں ملاقات نہیں کر سکتے
اتنا گہرا ہے یہاں کنج خرافات کا شور
لوگ اب طرفہ مناجات نہیں کر سکتے
اڑ تو جائیں شجر خام کے زنداں سے ہم
دوست ہے دوست سے ہم ہاتھ نہیں کر سکتے
اتنا سفاک ہے احساس کا منظر نامہ
لوگ اندازۂ صدمات نہیں کر سکتے
کیا یہ کم صدمہ ہے دو طرفہ ملاقات کے بیچ
بول سکتے ہیں مگر بات نہیں کر سکتے
بس کوئی دکھ ہے جس بار نمو کرنا ہے
جس کو ہم رزق عبارات نہیں کر سکتے
الیاس بابر اعوان