بونیر سے جنید ضیاء
یہ نئی صدی ہے، مگر دل کی دھڑکنیں صدیوں پرانی لگتی ہیں، جب جنید ضیاء جیسے نوجوان شاعر بولتے ہیں۔ ان کے لفظوں میں جو شعلہ سلگ رہا ہے، وہ نہ صرف اندر کی روشنی ہے بلکہ باہر کی تاریکیوں کا بیان بھی۔ وہ صرف محبت کے شاعر نہیں، بلکہ خودی، سچائی، اذیت اور معاشرتی جبر کے ایسے مسافر ہیں جن کی ہر غزل، ہر شعر، ایک راستہ دکھاتی ہے — وہ راستہ جو ہم سب کی ذات کے کسی نہ کسی کونے میں چھپا بیٹھا ہے۔
جنید کے اشعار میں اک "ذاتی صداقت” ہے — ایسی سچائی جو نہ واعظ کے لہجے میں ہے، نہ شور مچانے والے احتجاج میں، بلکہ ایک خاموش چنگاری کی طرح ہے جو قاری کے دل میں سلگتی ہے۔
کچھ اصول و ضابطے رکھتی ہیں عزت آبرو
گھر نہیں ہوتا وہ جس کی چار دیواری نہ ہو”
یہ صرف مکان کی بات نہیں، یہ اُس احساسِ تحفظ کی بات ہے جو کسی رشتے، کسی معاشرتی مقام، کسی وجود کو مکمل بناتا ہے۔ اور پھر اسی مکمل وجود کی چوٹ بھی ان کے اشعار میں ہے:
اک ذرا سا زخم کب ناسور بن جائے جنید
بات ایسی کیجیے جس سے دل آزاری نہ ہو”
جنید کا کلام ان افراد کی نمائندگی کرتا ہے جو زندگی کے تجربات سے سیکھ کر بھی نرم گو رہتے ہیں۔ وہ خودداری سکھاتے ہیں، خود کو اپنانے کی تلقین کرتے ہیں:
کوئی کرے نہ کرے خود سے پیار کرتے رہو
خود اپنی آس بنو آب دیدہ لمحوں میں
اور یہ خود سے جڑے رہنے کی تلقین، دراصل بکھرتے رشتوں، بےچہرہ معاشروں اور ہجوم میں تنہا انسان کے لیے ایک پیغام ہے۔
جنید ضیاء کا کلام محض جذبات کی بازگشت نہیں، یہ ایک فکری دعوت ہے — عشق، عقل، وفا، خدا، خودی، تمنّا، درد، سب ایک کائناتی مکالمے میں بدل جاتے ہیں:
کرتی ہے عقل، قتل تمنائے دل جنید
تنگ آ گیا ہوں اپنے بدن میں جہاد سے
یہ "جہادِ نفس” وہ داخلی جنگ ہے جو ہر باشعور انسان لڑتا ہے، اور جنید اسے بیان کرنے میں جس قدر سادہ ہیں، اتنے ہی گہرے بھی۔ ان کی شاعری میں کلاسیکی چاشنی بھی ہے اور موجودہ دور کی تپش بھی۔
یہ کچھ اور اشعار دیکھئیے دوستو ۔
کچھ اصول و ضابطے رکھتی ہیں عزت آبرو
گھر نہیں ہوتا وہ جس کی چار دیواری نہ ہو
اک ذرا سا زخم کب ناسور بن جائے جنید
بات ایسی کیجیے جس سے دل آزاری نہ ہو
ہم اعتبار کے سانپوں کے یوں ڈسے ہوئے ہیں
کہ آشنائی کی رسی سے دور بھاگتے ہیں۔۔۔!!
ہمارے واسطے اس سے بڑی خوشی کیا ہے
کہ ایک شخص محبت سے ہم کو دیکھتا ہے !
سارا عالم جانتا ہے میری قدر و منزلت
پر مجھے اس کی نگہ میں اپنا رتبہ چاہیے
رکھتی ہے پور پور بدن کا عذاب میں
وہ بات جو کسی کو بتائی نہ جا سکے
اگرچہ تیز ہوائیں ہوس کی چل رہی تھیں
پروں کو زہد کے دھاگے سے میں نے باندھ لیا
کوئی کرے نہ کرے خود سے پیار کرتے رہو
خود اپنی آس بنو آب دیدہ لمحوں میں
کہاں کہاں سے میں آنکھیں بچا کے لاتا ہوں
کہ ان پہ فرض ہے بس تجھ کو دیکھتے رہنا
ہم لوگ محبت کے پرستار رہیں گے
جب تک نہ بنیں سارا جہاں فرقہ ہمارا
صعوبتوں میں پکاروں گا، سو خدا نے بھی
تمام عمر مجھے امتحان میں رکھا۔
اخلاص ، پیار ، عشق ، وفا کچھ نہیں بچا
آنکھوں میں آنسوؤں کے سوا کچھ نہیں بچا
دیتا تھا روشنی مجھے برسوں سے اک چراغ
وہ نذرِ باد تُند ہوا ، کچھ نہیں بچا
کم پڑ رہی تھی روشنی محفل میں دم بدم
پھر اس نے مجھ کو دیکھ کے سب کو جلا دیا
نہ جانے کیا بنے گا میرا عشق نامی کھیل میں
نہیں ہے جیت اس میں اور ہارتا نہیں ہوں میں
مسلسل اک طرف چلے وہ راہرو نہیں ہے تو
جو ختم ہو سکے کبھی وہ فاصلہ نہیں ہوں میں
احمق ہے کون اُس سے بڑا اِس جہان میں
اپنی خوشی جو دوسروں سے منسلک کرے
ایک دن مجھ سے بچھڑ جائے گا میرا تبریز
اور میں رومی کی طرح چیختا رہ جاؤں گا
کرتی ہے عقل ، قتل تمنائے دل جنید
تنگ آ گیا ہوں اپنے بدن میں جہاد سے