بُجھے دلوں میں یقینِ سحر سلامت ہے
کہ اسمِ پاک ترا صبح کی علامت ہے
کجی سے دُور رہی تیرے گلستاں کی بہار
کہ تیرے باغ کا ہر نخل سرو قامت ہے
وہ اب ہوں کوچۂ طائف کہ شام کے بازار
ترے لہو کا تقاضا ہی استقامت ہے
تو وہ چراغ جو نورِ ازل سے روشن ہے
تو وہ حدوث کہ جس کی بنا قدامت ہے
حساب مجھ سے نہ لے پیش مصطفیٰ ، یارب!
کہ میری فروِعمل دفترِ ملامت ہے
وہ اور ہیں جو متاعِ عمل پہ نازاں ہیں
ہمارے پاس توآنسو ہیں اور ندامت ہے
حسن جلیل اختر