بچھو راجا
ایک آتش فشاں میں کمرہ ہے
اور کمرے میں سات سو بچھو
ایک بچھو کی پانچ سو ٹانگیں
اور ٹانگوں میں خم ہزار ہزار
سوچ کی سیڑھیوں سے کمرے میں
ایک لاغر وجود گرتا ہے
کسمساتا ہے ڈنگ کھاتا ہے
ڈنگ کھاتا ہے مسکراتا ہے
مسکراتا ہے زہر پیتا ہے
زہر پیتا اور مرتا نئیں
رقص کرتا ہے اور ڈرتا نئیں
زہر اسکی رگوں سے رستا ہے
قطرہ قطره زمیں پہ گرتا ہے
اور بنتا ہے اک نیا بچھو
اسکے تانڈو پہ ناچتا بچھو
جسکی آنکھوں میں سرخ انگارے
اور سینے میں ایک چنگاری
اس کے قدموں میں سات سو لاشیں
اور ہاتھوں میں ایک باجا ہے
اب وہی بچھووں کا راجا ہے
عمار اقبال