غزل
بچھڑ کر مجھ سے کوئی جا رہا ہے
کلیجہ منہ کو جیسے آ رہا ہے
لبوں پر ہے تبسم وقت رخصت
مگر دل ہے کہ امڑا آ رہا ہے
وہ آنچل صبر کے دامن کے مانند
مرے ہاتھوں سے چھوٹا جا رہا ہے
خفا تھے ہی جدا بھی ہو رہے ہیں
فلک یہ کیا قیامت ڈھا رہا ہے
جدا یوں ہو رہے ہیں مجھ سے جیسے
مقدر میرا بگڑا جا رہا ہے
جلیلؔ اب اس سے بڑھ کر داد کیا ہو
غزل تیری کوئی خود گا رہا ہے
جلیل قدوائی