غزل
بڑی لطیف بڑی خوش گوار گزری ہے
وہ زندگی جو سر کوئے یار گزری ہے
ہلاک گردش لیل و نہار گزری ہے
تمام عمر بڑی بے قرار گزری ہے
مقام ایسا بھی آیا ہے عشق میں کہ جہاں
نفس کی آمد و شد دل پہ بار گزری ہے
نگاہیں فرش رہ دوست اور دل بیتاب
عجیب طرح شب انتظار گزری ہے
جنوں کا کوئی تعلق نہیں چمن سے مگر
دلوں کے زخم سجا کر بہار گزری ہے
نزاکت غم جاناں کی انتہا مت پوچھ
شکایت غم دوراں بھی بار گزری ہے
ہماری زیست کا حاصل نہ پوچھ اے بسملؔ
اسیر گردش لیل و نہار گزری ہے
بسمل آغائی