23/02/2025 06:34

بڑے گھر کی بہو تحریر طارق بلوچ صحرائی

***بڑے گھر******

تحریر۔۔۔۔۔ طارق بلوچ صحرائی

باپ سردیوں کی دھوپ کے لمس کی طرح هوتے ہیں باپ اور بیٹی کی محبت کی داستان بھی عجیب ھے یہ ازل سے پہلے اور ابد کے بعد کی کہانی ھے اس کہانی کو سننے والا سانسوں کی مالا پہنے زندگی کی قبر میں اتر جاتا ھے

دنیا میں بڑے بڑے ادا کار گزرے ہیں مگر باپ سے بڑا ادا کار کوئی نہیں ہوتا وہ ماں سے بڑھ کر اولاد سے محبت کرتا ھے مگر ظاہر نہیں ہونے دیتا۔ اس سفاک اور بے حس معاشرے میں رہتے ہوئے وہ اپنی بیٹی کو دیکھ کر ہر لمحہ جیتا اور مرتا ھے بیٹی کی ایک مسکراہٹ اُسے کئی زندگیاں عطا کر دیتی ہے اور اس کا ایک آنسو اسے کئی بے گور و کفن موتیں مار دیتا ھے ۔بیٹی کی واپس جاتی ہوئی بارات کو روکنے کے لئے کوئی باپ سسکتا ھوا جب اپنی دستار کسی کے قدموں میں رکھ کر زندہ درگور ھوتا ھے تو قیامت کو بھی جھرجھری آ جاتی ھے یہ ہجر کا فلسفہ بھی عجیب ھے اس کو جان لینے والا مر جاتا ھے اور نہ جاننے والا مار دیا جاتا ھے۔ باپ گہرے سمندر کی طرح ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر کوئی قیاس نہیں کر سکتا کہ اُن کی گہرائی میں کتنے طوفان برپا ہیں میرے بابا کے اندر بھی کئی کائناتیں کتنی صدیاں اور کئی زمانے بستے تھے کبھی مجھے لگتا تھا رب نے انہیں حقیقت آشنا کر کے اُن کی قوت گویائی سلب کر لی ہے کبھی کبھی مجھے لگتا باپ ملہار کی طرح ہوتے ہیں اسی لئے تو اُن کی یاد کا ابر ہر لمحہ جل تھل کئے رکھتا ھے ۔ مجھے اسکول، کالج یونیورسٹی لے کر جانا آنا انہوں نے اپنے ذمہ لیا ہوا تھا۔ ہمارا گھر یونیورسٹی کے اندر تھا اس لئے یو نیورسٹی کے زمانے میں مجھے پیدل ہی لے کر آتے جاتے تھے۔ کبھی کبھی میں کہتی بابا گاڑی پر چلتے ہیں تو وہ مسکرا کر کہتے بیٹا اللہ سبحان تعالیٰ نے انسان کو پیدا ہی پیدل چلنے کے لئے کیا ہے وگرنہ اس کی دو کی بجائے چار ٹانگیں ہوتیں۔ وہ ہمیشہ اللہ سبحان تعالی کہتے تھے کوئی اللہ جی کہتا تو منع کرتے تھے کہتے تھے خالق کا ایک اپنا پروٹوکول ھے "جی” تو آپ دنیا کے رشتوں کے ساتھ بھی بولتے ہیں۔ راستے میں ہم ڈھیروں باتیں کرتے تھے پھر وہ اپنے کمرے میں بیٹھ جاتے تھے جو کتابوں سے بھرا ہوتا تھا کہتے تھے اصل زندگی وہی ھے جو کتابوں میں گزرے۔ کتاب انسان اور حیوان میں ایک فرق ھے کتاب سوال پیدا کرتی ھے اور سوال علم کو جنم دیتا ھے ۔ فسطائیت اور فاشزم کے زمانے میں سوال شجر ممنوعہ ہوتا ھے ۔ بولے! برف پوش کہساروں کے سائے میں بیٹھے ایک بوڑھے نے مجھ سے کہا تھا ”لوگ بھی عجیب ہوتے ہیں سورج کا نوحہ نہیں لکھتے سائے چرانے لگتے ہیں اُن کے لئے چائے بنانا میرے ذمہ تھاوہ مسکراتے ہوئے چاۓ کو اشرف المشروبات کہتے تھے میں جب بھی چائے لے کر اُن کے کمرے میں جاتی تھی تو مُسکراتے ہوئے دُعا ضرور دیتے تھے۔ دادی کی رحلت کے بعد اُن کی چائے ٹھنڈی ہونے لگ گئی تھی میں کئی کئی بار اُن کی چائے گرم کر کے لاتی تھی اور وہ پھر خیالوں میں کھو جاتے تھے اور چائے ٹھنڈی ہو جاتی میں نے ایک بار کہا بابا آپ کی چائے ٹھنڈی کیوں ہونے لگ گئی ہے مسکرا کر بولے گرم چائے وہی پیتے ہیں جو کسی کو یاد نہیں کرتے جو بچھڑ جانے والوں کو بھول جاتے ہیں گرم چاۓ صرف بے وفا پیتے ہیں

۔ مجھے یاد ھے دادی کی وفات پر خاندان کا ہر شخص غم سے نڈھال رورہا تھا مگر نہ جانے کیوں بابا خاموش تھے اُن کی سرخ آنکھیں ویران تھیں مجھے بڑی حیرانی ہوئی بابا تو دادی کے ساتھ بے حد محبت کرتے تھے ایک دوسرے کو دیکھ کر جیتے تھے اُن کا بے حد خیال کرتے تھے پھر یه خامشی کیسی ؟ دوسرے دن رات کو بھائی نے بابا سے پوچھ ہی لیا با با آپ دادی سے بے حد پیار کرتے تھے وہ بھی آپ کو دیکھے بغیر ایک لمحہ نہیں جیتی تھیں مگر اُن کی وفات پر ہر شخص رو رہا ہے غم سے نڈھال ھے مگر آپ کیوں خاموش ہیں اس چُپ کی کیا وجہ ھے ؟ بابا نے اپنی ویران اور سرخ آنکھوں سے ہمیں دیکھا اور بولے میں نہیں جانتا میں ماں کی خدمت کا حق ادا کر سکا ہوں یا نہیں مگر میں نے اپنے ماں باپ کو ایک دُکھ نہیں دیا میں اُن کی زندگی میں مرا نہیں بیٹا ان سب لوگوں نے صرف دو دن رونا ھے میں نے تو ساری حیاتی رونا ھے میرے بچو ماں باپ کے بغیر زندگی ریل گاڑی میں رات کو ڈبے میں بیٹھے اُس تنہا نا بینا مسافر کی طرح ہو جاتی ھے جسے اپنی منزل کا بھی علم نہ ہو اور پھر اتنا روئے جیسے ساون کی جھڑی لگ گئی ہو اور یہ چھڑی وقفے وقفے سے اب تک جاری ھے ۔ جس صبح میری رخصتی تھی وہ رات سرد رویوں کی طرح سخت خنک تھی لگتا تھا سارے چراغ بچھ گئے ہیں طاق میں شام جل رہی تھی بابا ساری رات مجھ سے باتیں کرتے رہے تھےان کی آواز جیسے بھیگتے جنگل کی سرگوشی هو مجھے لگا جیسے ہجر کی لاکھوں بانسریاں اُن کے سینے میں گریہ کر رہی ہیں اُن کے لہجے میں دھیرے دھیرے اترتی ہوئی سرمئی کہر زدہ شاموں کی سی اُداسی تھی مجھے لگتا تھا بابا ابھی رو دیں گے اُس دن مجھے لگا بابا جیسے غم ناک پرندوں سے بھرا ایک برگد ہوں کہنے لگے بیٹا خوابوں کے محل صرف کہانیوں ہی میں اچھے لگتے ہیں نفرت کے لفظ کو اپنی زندگی کی لغت سے جلاوطن کر دو محبت اُس دل آویز مسکراہٹ کا نام ھے جہاں سے زندگی شروع ہوتی ھے ۔ کچھ لوگ آپ کے ساتھ ہوتے ہیں مگر ہمراہ نہیں سب کو ساتھ لے کر چلنا لوگ خود فریبی کی رونق میں زندہ ہیں بے نور دیاروں میں چراغوں کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ مقصد بڑا ہو تو زہر بھی آپ کو مار نہیں سکتی بلکہ سقراط بنا دیتی ھے ۔ علم آپ کو آزاد کرتا ھے اگر آپ غلام ہیں تو علم والے نہیں ہیں۔ اہلِ دل ہی راز آشنا ہوتے ہیں اہل دماغ نہیں علم اور سچ صرف پاک روحوں اور پاک دلوں پر ہی اُتارا جاتا ھے ۔ سچ کا بھید اہل دماغ نہیں پاسکتے کیونکہ دماغ پر عکس اُلٹا پڑتا ھے آنکھ اُسے سیدھا دکھاتی ھے ۔ ہم ایک زوال پذیر معاشرے میں زندہ ہیں اس جمود کو توڑنے کے لئے ضروری ھے کہ مثبت تبدیلی کے لئے کام کیا جائے سب سے پہلے ہمیں رزق حلال کی طرح پلٹنا ہو گا ہم کسی نہ کسی صورت میں حرام کھا رہے ہیں رزق حرام بے حس بنا دیتا ہے بےحسی موت کا دوسرا نام ھے دل کا گھر مٹی کا ہو تو محفوظ ھے میں نے اپنے وقت کے نام گرامی چور سے پوچھا تم نے اپنی زندگی سے کیا سیکھا ھے ۔ کہنے لگا۔ "کچے گھروں کو لوٹا نہیں کرتے جیون لٹ جاتا ھے“ پھر مسکرا کر بولے سچے رشتے اور سچے تعلق تصویر میں موجود نہ بھی ہوں تو رنگوں میں

موجود ہوتے ہیں۔

میں اُن کی مسکراہٹ کو دیکھ کر ماضی کی دھند میں کھوگئی مجھے یاد آیا ایک دن کسی بات پر وہ مجھ سے ناراض ہو گئے اُس دن انہوں نے میرے ہاتھ کی بنی چائے بھی نہیں پی میں دادی کے پاس گئی دادی بولی بیٹا باپ زندگی سےتو خفا ہو سکتے ہیں بیٹیوں سے نہیں صبح میں تمہارے ساتھ جا کر اُس کو ڈانٹوں گی۔ میں ساری رات جاگتی رہی اور روتی رہی فجر کی اذان سے کچھ پہلے میں اُن کے کمرے میں گئی وہ بیٹھے رو رہے تھے میں اُن سے لپٹ کر سسک سسک کر روئی میں نے کہا بابا آپ مجھے معاف کر دیں وگرنہ ہم دونوں عمر بھر سو نہیں سکیں گے وہ مجھے چُپ کراتے جاتے تھے اور روتے جاتے تھے اور بولتے جاتے تھے میں اپنی زندگی پر قربان ، اپنی بیٹی پہ قربان بیٹا ایک بار کہنے لگے جب زندگی میں احساس اور عمل میں اخلاص نہ ہو تو زیست قبولیت سے خالی نماز کی طرح ہو جاتی ھے زمین کی طرح رہو جو سورج کے گرد 365 دنوں میں اپنا سفر مکمل کرتی ہے مگر خوداپنے گرد چوبیس گھنٹوں میں اسی تناسب سے اپنے اندر کی دُنیا اور باہر کی دنیا سے رابطہ رکھو۔ مجھے اب بھی یاد ھے گرمیوں کی دو پہر میں بابا دوسری طرف منہ کر کے کتاب پڑھ رہے تھے میں نے چپکے سے جا کر اُن کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا وہ مسکرا کر بولے بھلا میں اپنی زندگی کو نہیں پہچان سکتا جس کو میں خود سے زیادہ پیار کرتا ہوں پھر کہنے لگے بیٹا زندگی کے شور نے ہم سے کسی اپنے کی چاپ کی آہٹ اور سرگوشیوں کا حسن چھین لیا ہے اور پھر نماز کے لئے کھڑے ہوتے بولے بیٹا لمبے سجدے سے محتاجی سے نجات اور رات کے سجدوں سے رب ملتا ھے کہنے لگے بیٹا جس کے پاس جو ہوتا ہے ناں اُس نے وہی تقسیم کرنا ہوتا اس لئے لوگوں کو رویوں اور سلوک کا کبھی شکوہ نہ کرنا کہ ہر کسی کے پاس محبت، خلوص، پیار، اپنائیت، ظرف اور دریا دلی کے گوہرنہیں ہوتے۔ لوگوں کا آپ سے برتاؤ ان کی تربیت اور ظرف کے مطابق ہوتا ہے۔ میری رخصتی پر بابا بہت روئے تھے۔ باپ سے جدائی شاید موت کی پہلی قسط ہوتی ھے کہنے لگے بیٹا میں تمہیں اچھی تربیت اور دُعا کے پھول دے کر رخصت کر رہا ہوں دُعا واحد چیز ھے جس کا کوئی زمانہ نہیں ہوتا یہ ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانوں کے لئے ھے کیونکہ جس سے دُعا کی جاتی ھے وہ لافانی ھے ازل سے ھے اور ابد تک رھے گا۔ دُعا ایسی چیز ھے جو توبہ میں ڈھل کر ماضی کو اُجلا اور شفاف حال کو جنت اور مستقبل کو محفوظ بنا دیتی ھے ۔ میری شادی ایک بڑے گھر میں ہوئی تھی گھر میں سب کچھ تھا میرے شوہر کا رویہ بھی اچھا تھا مگر صرف ایک کمی تھی ہمیں وہ عزت اور توجہ نہیں ملتی تھی جو اُس گھر کی بیٹیوں کو ملتی تھی۔ میرے جیٹھ اور دیور بھی اسی گھر میں رہتے تھے ان بہوؤں کو بھی یہی گلہ تھا کہ گھر کے کسی معاملے میں ہم سے مشورہ نہیں لیا جاتا۔ میری ساس ہر وقت اپنی بیٹیوں پر واری صدقے جاتی رہتی تھی۔ اُن کی ایک بیٹی شادی شدہ تھی جو اسی شہر میں رہتی تھی میری ساس سارا دن اُس کو تحفے بھجواتی رہتی تھی ابھی کل ہی اُس نے نئی گاڑی لے کر بھجوائی تھی۔ میں جب گھر جاتی تو ابو پوچھتے تم خوش ہو ناں بیٹا میں مسکرا کر کہتی ابو بہت خوش سب لوگ بہت اچھے ہیں ہم سب بہوؤں کا خیال رکھتے ہیں ابو میرے جواب پر مسلسل میری آنکھوں کی طرف دیکھتے رہتے جیسے کچھ کھو جنا چاہتے ہوں۔ ابو اب ضعیف ہو گئے تھے کبھی کبھی مجھے لگتا بابا جیسے نمک کھائی ہوئی دیوار میں سمٹتا ہوا کوئی معبد ہوں یا جیسے کوزہ گر کی دکان پر رکھا کوئی شکستہ چراغ ہوں ۔ مجھے ایک دُکھ یہ بھی تھا میری

ساس مجھے ابو سے ملنے کے لئے اعتراض کرتی تھیں اور کم کم آنے دیتی تھیں۔

بڑے دنوں کے بعد جب میں ایک دن ابو سے ملنے آئی تو ابو بولے بیٹا کیا وہ لوگ تمہاری عزت کرتے ہیں کیونکہ دوسرے سفر کا رزق صرف عزت ہے میں نے کہا بابا آپ کیوں وہم کرتے ہیں کیوں پریشان ہوتے ہیں میں خوش ہوں میں وہاں عزت سے رہتی ہوں میرے سسرال والے بہت اچھے ہیں بابا نے میری طرف دیکھا اور خاموش ہو گئے جیسے انہیں یقین نہ آیا ہو۔

میری شادی کو چار سال گزر گئے تھے میرا ایک بیٹا تھا جو اپنے نانا کی جان تھا ابوفون پر ہر وقت اس کی باتیں کرتے رہتے تھے۔ مگر میں اپنی ساس کی وجہ سے زیادہ دن ابو کے ساتھ نہیں گزار سکی تھی۔

ایک دن جب میں بازار سے واپس آئی تو مجھے ملازمہ نے بتایا کہ ابو آئے تھے کچھ دیر میری ساس سے باتیں کرتے رہے اور پھر کچھ کھائے پئے بغیر واپس چلے گئے۔ میں پریشان ہوگئی ابو کیوں آئے تھے؟ اتنی جلدی واپس کیوں چلے گئے مجھے بتایا کیوں نہیں۔ ابھی میں اُن کو فون کرنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ میری ساس میرے کمرے میں داخل ہوئی اور مجھ سے لپٹ کر رونے لگ گئی کہنے لگی مجھے معاف کر دو تم میری بہو نہیں میری بیٹی ہو یہ بڑا گھر ھے تم بڑے گھر میں بیاہی گئی ہو۔

میں نے کہا امی کیا ہوا مجھے بھی تو کچھ بتائیں کیا ہوا۔

ابو کیوں آئے تھے انہوں نے آپ سے کیا کہا وہ روتی جاتی تھیں اور بولتی جاتی تھیں۔

تمہارے بابا آئے تھے کہنے لگے میری بیٹی کیسی ھے میں نے کہا اچھی ھے اُسے تو فخر ہونا چاہئے کہ وہ اتنے امیر اور بڑے گھرانے میں بیاہی گئی وہ ایک بڑے گھر کی بہو ھے ۔

کہنے لگے

بیٹی جب گھر سے رخصت ہوتی ہے تو باپ اور بیٹی دونوں مر جاتے ہیں بیٹی کی دوسری زندگی جو رخصتی کے بعد شروع ہوتی ھے اُس کا رزق صرف عزت ہوتی ھے وہ اچھا لباس اور زیور بھی اسی لئے چاہتی ھے کہ وہ دوسروں کو دکھا سکے کہ اُسکی سسرال میں عزت ھے ۔ عورت کی آکسیجن ہی عزت ھے اور باپ کی دوسری زندگی کا رزق اور آکسیجن اُسکی بیٹی کی خوشی ھے ۔ باپ سے بڑا ادا کار کوئی نہیں ہوتا اگر کسی بیٹی کو معلوم ہو جائے کہ اُس کا باپ اُس سے کتنی محبت کرتا ھے تو باپ کی زندگی تک اپنا گھر بسانے کا کبھی سوچے بھی نہ میں نے ماں سے بڑھ کر کوئی عاشق نہیں دیکھا اور اولاد سے بڑھ کر کوئی محبوب نہیں مگر باپ کی اپنی بیٹی سے محبت کے لئے الفاظ اور انسانی سوچ اس کا احاطہ نہیں کر سکتی ۔

میری بیٹی میرے سامنے جھوٹ بول سکتی ھے مگر اُسکی آنکھیں نہیں۔ روتے روتے میری ہچکی بندھ گئی اور پھر مجھے ہوش نہیں رہا جب مجھے ہوش آیا تو میرا سر میری ساس کی گود میں تھا اور سارے گھر والے بہوؤں سمیت پریشانی کے عالم میں مجھے دیکھ

رہے تھے۔

میں نے ٹوٹے پھوٹے لفظوں سے پوچھا

اور کیا کہا بابا نے میری ساس نے پہلے اپنے اور پھر میرے آنسو پونچھے اور بولی جب دروازے سے باہر نکلنے لگے تو بولے میری بہن یا د رکھنا

بڑے گھروں میں بہوؤیں نہیں ہوتیں صرف بیٹیاں ہوا کرتی ہیں۔۔۔۔

Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین