بھول جائے تو اسے یاد نہ آنے دینا
دل کو بیتی ہوئی باتوں میں نہ جانے دینا
ان کو تعبیر نہ دے پاؤ تو اے راہبرو
میرے لوگوں کو ذرا خواب سہانے دینا
ذکر کرتے ہوئے ماضی کی محبت کا اگر
کوئی چپ ہو تو اسے بات چھپانے دینا
ایسی کم ظرفی کو مزدور کہاں سمجھے گا
اس کو اجرت میں سبھی نوٹ پرانے دینا
یارِخوش حال کو عزت سے بٹھانا گھر میں
مجھ سے بد حال کو باہر سے ہی جانے دینا
یہ خبر مجھ نہ دینا کہ وہ آئے گا نہیں
اس بہانے مجھے تم گھر تو سجانے دینا
سلمان صدیقی