بھٹکتی آرزو کے جسم کی تم کھال میں خوش ہو
عجب دیدہ دلیری ہے ، سنہرے جال میں خوش ہو
اگرچہ ڈر تھا ہم بچھڑے تو مر سکتے ہیں , لیکن اب
میں اپنے حال میں خوش ہوں تم اپنے حال میں خوش ہو
یہ جس موسیقیت کے زرد موسم سے جڑے ہیں گیت
پرندو ! سچ بتاؤ صبر کے سرتال میں خوش ہو؟
مری تنہائیوں کی راکھ سے تو تم پریشاں تھے
اب اپنی وحشتوں کی آگ اور چوپال میں خوش ہو
کئ دن سے جو تم بُھولی ہو دل بازار کا رستہ
خسارے میں ہے کاروبار ، کیا ہڑتال میں خوش ہو
شجر کس واسطے الجھے ہواؤں کی حکومت سے
چراغِ شب اگر خود اپنے استحصال میں خوش ہو
ادھورے پن کی لذت سے شناسائی کا غم سہہ کر
تو کیا تم تین سو پینسٹھ دنوں کے سال میں خوش ہو
ارشاد نیازی