بھٹک رہا ہوں کہ بھٹکایا جا رہا ہے مجھے
یہ راز کیوں نہیں بتلایا جا رہا ہے مجھے
کہ ریزہ ریزہ بھی ہو جاؤں اور پتا نہ چلے
نظر کے آرے سے کٹوایا جا رہا ہے مجھے
اگر میں واقعی پتھر ہوں دوستوں کے بقول
تو نوچ نوچ کے کیوں کھایا جا رہا ہے مجھے
ہجوم شہر میں لا کر مرا کٹا ہوا سر
اچھال اچھال کے منوایا جا رہا ہے مجھے
مری طلب نہ زمینی نہ آسمانی ہے
سو خالی ہاتھ ہی لوٹایا جا رہا ہے مجھے
میں جانتا ہوں کہ شانوں پہ سر نہیں رہنا
اگر چہ تاج تو پہنایا جا رہا ہے مجھے
ہمارے بیچ کوئی تیسرا نہ آئے گا
زبانِ غیر سے کہلایا جا رہا ہے مجھے
جسے بقا کی ضمانت سمجھ رہا تھا میں
اسی فصیل میں چنوایا جا رہا ہے مجھے
سید انصر