غزل
بھگت رہا ہوں میں بھگتان اس الاؤ کے ساتھ
کہ لخت لخت ہوا ہوں میں اس جلاؤ کے ساتھ
پرانے زخم مجھے مل رہے ہیں یاروں سے
میں مطمئن ہوں لگے ایک ایک گھاؤ کے ساتھ
بہا رہی تھی مجھے موجِ زندگی جس دن
میں منتشر ہوا اس روز ہر دباؤ کے ساتھ
خیال و خواب کی سب کھڑکیوں کو کھول کے آج
وہ بھر رہا ہے مرے نقش کو خلاؤ کے ساتھ
تعلقات کی سیڑھی سے گر گئے تھے یہ لوگ
اکھٹا کرنا پڑے گا انھیں جھکاؤ کے ساتھ
وہ جن سے خاص مراسم تھا آج اس سے بھی
فریب ملنے لگا ہے مجھے لگاؤ کے ساتھ
ستارے رزق کی خاطر بھٹک رہے تھے ندیم
انھیں میں کھینچ ہی لایا ہوں اس بہاؤ کے ساتھ
ندیم ملک