غزل
فنا نہیں ہے محبت کے رنگ و بو کے لئے
بہار عالم فانی رہے رہے نہ رہے
جنون حب وطن کا مزا شباب میں ہے
لہو میں پھر یہ روانی رہے رہے نہ رہے
رہے گی آب و ہوا میں خیال کی بجلی
یہ مشت خاک ہے فانی رہے رہے نہ رہے
جو دل میں زخم لگے ہیں وہ خود پکاریں گے
زباں کی سیف بیانی رہے رہے نہ رہے
دلوں میں آگ لگے یہ وفا کا جوہر ہے
یہ جمع خرچ زبانی رہے رہے نہ رہے
جو مانگنا ہے ابھی مانگ لو وطن کے لئے
یہ آرزو کی جوانی رہے رہے نہ رہے
چکبست برج نرائن