غزل
بہت تھکان بدن میں مرے سفر کی رہی
مگر وہ شوق کی منزل کہ ہر نگر کی رہی
وہ جس پہ چل کے سدا پاؤں زخم زخم ہوئے
نہ جانے کھوج ہمیں کیوں اسی ڈگر کی رہی
جو میری ذات کی پنہائیاں سمجھ لیتی
تمام عمر ضرورت اسی نظر کی رہی
جب اپنے آپ میں ڈوبے فلک کو چھو آئے
کہ احتیاج ہمیں اب نہ بال و پر کی رہی
ہمیں سے سنت منصور اب بھی زندہ ہے
کہ ہر زمانے کو حاجت ہمارے سر کی رہی
بلا سبب تو کرامتؔ پہ اپنی ناز نہیں
کہ چار دانگ میں شہرت مرے اثر کی رہی
کرامت غوری